Friday, March 22, 2019

رمضان کی آمد


۲۹ شعبان۱۴۳۹ھ                                                         15/05/2018
دوحہ
رمضان کی آمد
دو سال قبل سی شیلز جانا ہوا۔ وسطی افریقہ سے چند کلو میٹر دور مڈگاسکر کے قریب سی شیلز کے جزائر میں۔ یہ بنیادی طور پر ایک تفریحی علاقہ ہے اور سیاح یہاں سیر کرنے اور چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ میں نے رہائش کیلئے ایک مکان کی اوپری منزل کرائے پر لی تھی۔ اس کے مکان مالک کا نام جارج تھا۔ جارج بنیادی طور پر کسی مذہب کا ماننے والا نہیں تھا۔ سی شیلز میں مسلمان بہت کم تعداد میں اباد ہیں۔ جو آباد ہیں وہ بھی اسلامی احکام سے نابلہ ہیں۔ ایک دور دراز جزیرے میں رہنے کی وجہ سے جارج اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ شاید میں پہلا مسلمان تھا مجھ سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ چند دنوں کے قیام کے دوران میری اس سے اچھی علیک سلیک ہوگئی، واپس آتے ہوئے میں اسے پاکستان آنے کی دعوت دے کر آیا جو اس نے قبول کرلی۔

جارج سی شیلز سے مشرق کا سفر کر رہا تھا، اس نے تین دن کراچی میں ٹہرنے اور پھر آگے جانے کا پروگرام بنایا۔ یہ وہ دن تحے جب رمضان کی آمد آمد تھی۔ میں نے جارج کو کراچی ائرپورٹ سے لیا اور ہم گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ رمضان شروع ہونے میں صرف دو دن باقی تھے۔ جارج رمضان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر اسے کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو خود ماہِ رمضان کی آمد محسوس کرنے دیتے ہیں۔ اشتہارات پرمسنی  تھی۔ کسی بورڈ پر تیل کا اشتہار تھا تو کسی پر گھی کا، کسی پر سموسے نظر آتے تو کسی پر پکوڑے، کولا کے اشہار سب سے زیادہ موجود تھے۔ گھر پہنچ کر میں نے اس کا کمرہ دکھا یا ، تازہ دم ہونے کے بد ہم نے ساتھ کھانا کھایا اور جارج آرام کرنے لگا۔ شام کو ہم باہر نکلے ساحل کی سیر کیلئے گئے۔ اس راستے میں بھی کھانے پینے کے اشتہارات کی بھر مار تھی۔

گھر آکر ہم نے ٹیلیویژن کھولا اور پاکستانی پروگراموں سے محفوظ ہونے لگے۔ ہر پروگرام کے دوران اشتہارات اور ان میں کھانے پینے کی مضری تمایاں ، کسی اشتہار میں خاتون خانہ ایک بھرے پرے دسترخوان پر اپنے گھر والوں کو شربت پیش کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں تو کہیں لوگ بڑی تعداد میں دعوت کھارے تھے۔ کہیں تیل اور گھی کے اشتہار میں کباب تلے جارہے تھے، تو کہیں کیچپ کے کے اشتہار میں سموسے اور پکوڑے کھائے جارہے تھے۔ کھانے پکانے کے مخصوصی چینل پر شیف عورتیں اور حضرات رمضان کے اعتبار سے کھانے پکارہے تھے۔ ان تمام اشتہارات مِں کولا کا اشتہار نمایاں تھا۔ لوگ اتنی بڑی تعداد میں کولا خرید کر لے جاتے ہوئے نظر آئے جیسے مفت بٹ رہا ہو۔

میں نے جارج کو صرف اتنا بتایا تھا کہ مسلمانوں کا ایک انتہائ اہم مہنیہ شروع ہونے والا ہے جس کانام رمضان ہے، اب یہ اندازہ تم خود لگاؤ کہ اس مہینے میں ہم کیا کرتے ہیں۔

اگلے دن جارج نے بازار چلنے کی فرمائش کی ۔ میں اسے کراچی کی سب سے بڑِ سپر مارکٹ لے گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وقت کی کمی کی وجہ سے  ایک ہی جگہ تمام چیزیں مل جائیں۔ الگےدن پہلا روزہ ہونا تھا۔ جارج مارکیٹ کا ماحول دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لوگوں نے تھوک کے حساب سے کھانے پینے کی اشیاء ٹرالی میں بھری ہوئی تھیں، گوشت ، چاول ، دالیں ، شربت ،چائے اور مصالحے ، اکثر چیزیں 10 کے ساتھ 2 مفت والے پیکٹ میں نظر آئیں۔مارکیٹ میں اندرہی مختلف کمپنیوں نے اسٹال لگائے ہوئے تھے۔ وہ پہلے آپ کو مکین نگٹ کی آزمائش کرواتے اور پھر خریدنے کی پیشکش کرتے۔ اسی طرح شربت ، دہی ، دودھ اور دیگر مصنوعات کے اسٹال موجود تھےجنہیں خریدنے سے پہلے آزمایا جاسکتا تحا۔ جارج مارکیٹ کی سجاوٹ اور لوگوں کا راشن خریداری کا شوق دیکھ کر محفوظ ہورہا تھا۔

شام ڈھلنے کے بعد ہم مقامی بازار چلے گئے۔ سپر مارکیٹ جیسی گہماگہمی یہاں بھی نظر آئی۔ پتھارے والے تیار تھے۔ مٹھائی کی دکان والوں نے اپنا اسٹال آگے بڑھالیا تھا، کھجلہ اور پھینی تلے جارہے تھے اور کھجلہ پھینی کے انبار بھلے معلوم ہورہے تھے۔ لوگ راشن اور ناشتہ کا سامان لے کر جلدی جلدی گھر جاتے نظر آئے۔

میں نے سحری میں جارج کو بھی جگا دیا ۔ ہم نے ساتھ ناشتہ کیا اور فجر کی نماز کے بعد میں اسے ائر پورٹ چھوڑنے چل دیا۔ راستے میں میں نے جارج سے دریافت کیا کہ اب بتاؤتمہیں کیا محسوس ہوا ، تم کیا سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کا کیسا مہینہ یا تہوار آیا ہے؟  جارج نے کچھ سوچے بغیر جواب دیا "اس میں پوچھنےکی کیا بات ہے ، یہ بات واضع ہے کہ ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں مسلمان خوب کھاتے ہیں، شاید انہیں ان کے مذہب کی طرف سے زیادہ کھانے کی ہدایت کی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ کھانے کی مقدار اور انتخاب میں اپنی صحت تک کا خیال نہیں رکھ رہے "۔

)نوٹ: یہ کہانی اور اس کے کردار فرضی ہیں۔(


ریٹائرمنٹ


۳۰ ذوالحجہ ۱۴۳۹ھ                                                                                                                      10/09/2018
دوحہ                                                                                                                                                                                                       Doha

ریٹائرمنٹ
ریٹائرمنٹ بھی کیا خوب چیز ہے، جب ایک انسان اپنی نصف سے زیادہ زندگی کسی کام پر لگادے، اسی کے سارے اسرادودموذ جان جائے، اس کی گرفت انتہائی مضبوط ہوجائے، اس کی سمجھ قوی ہوجائے اور اسی کا تجربہ نا قابل سیاہ ہوجائے تو ہم کہتے ہیں کہ گھر بیٹھو اور اور مفت کی روٹیاں توڑو۔ ایسی حماقت بنی نو ع انسان نے صنعتی دور سے پہلے شاید کبھی نہیں کی۔ وجہ یہی ہے کہ اس دور میں انسانوں کو بھی مصنوعات یا مشینوں کا کل پرزہ سمجھ لیا گیا کہ ایک مدت پوری کرلینے کے بعد جس طرح پرزہ ناکارہ ہوجاتا ہے او رکبھی بھی کام چھوڑ سکتا ہے ۔ اسی طرح انسان بھی ناکارہ ہوگیا اور اب ہمارے کسی کام کا نہیں رہا ۔ گو کہ اس کی لیاقت کا ہمیں فائدہ ہوسکتا ہے لیکن لیاقت کی ضرورت کسے ہے؟ ہمیں تو جسم کی ضرورت ہے اور جسم اب ہمارے کام کا نہیں۔ جس طرح ہم پر انے سامان کو کباڑی کو بیچ دیا جاتا ہے کہ جب تکہ یہ ذندہ ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرتے رہوں۔ اسی لیے آج کے دور میں انسانوں کو "Human Resource" کہا جاتا ہے۔ "Resource" کے لفظ کے دکشنری میں درج ذیل معنی ہمیں ملتے ہیں۔
“Money or any properly that can be converted into money assets”.

“A source of supply support or aid especially one that can be readily drawn upon when needed”.
درج بالا تعریف سے Human Resource  کی اصلاح کی وضاحت ہوجاتی ہے جب تک اس "چیز" کی معاشی و قعت ہے اس وقت تک فائدہ مند ہے، اور جب معاشی فائدا دینے میں ناکام ہوجائے اور اپنی نا کارہ چیز کوگوارا نہ کیا جائے۔
ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو تا ہے کہ ریٹائرمنٹ موت پر ہی حاصل ہوئی تھی، اس سے پہلے کام ، کام اور بس کام ہی ان کا اورٹھنا بچھونا تھا۔ عمر کے ساتھ ساتھ علم، تجربات اور لیاقت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ساتھ جڑے لوگوں کو منتقل ہوجاتا ہے۔

قربانی

19/11/2018
۱۲ ربیع الاول ۱۴۴۰ ھ
دوحہ

قربانی

گذشتہ عید الاضحیٰ بہت سے احباب سے باتو ں باتوں میں قربانی کا تذکرہ ہوا۔ عام طور پر عیدالاضحیٰ سے پہلے یہ سوال ہوتا کہ اس دفعہ آپ کا قربانی کا کیا ارادہ ہے۔ قظر میں پاکستنا اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگوں کا جواب یہی تھا کہ ہم نے اپنے ملک میں رقم بھجوادی ہے اور وہیں قربانی ہوجائے گی۔جب پوچھا گیا کہ صاحب آپ یہاں کیوں قربانی نہیں کرتے تو عام طور پر جو جواب آتا وہ یہ تھا کہ آپ کو غریب نہیں ملے گا جس کو قربانی کا گوشت تقسیم کیا جائے۔ جب مزید کچھ سوال کیئے گئے تو اصل جواب آگیا کہ ہم نے آسان راستہ اختیار کیا کہ ہم پیسے بھیج دیں اور پاکستان میں گھر والے سارے معاملات سنبھال لیں۔ ہمیں حرکت نہ کرنی پڑے۔ جہاں تک غرباء میں گوشت تقسیم کرنے کا معاملہ ہے تو آپ کو بیرون ملک بھی غریب دستیاب ہوجائیں گے ، لیکن بالخصوص قربانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس میں شریعت نے ہمیں مکمل  ترف دیا ہے ، چاہیں تو پورا گوشت تقسیم کردیں، چاہیں تو پورا خود استعمال کرلیں، چاہیں تو کچھ استعمال کریں اور کچھ تقسیم کردیں۔یقیناً ترجیح اس کو ہے کہ تین حصے کیئے جائیں ، ایک غرباء کیلئے ، ایک رشتہ داروں کیلئے اور ایک اپنے لئے۔

اگر ہم اس بنیاد پر کہ غریب دستیاب نہیں ہیں یہاں قربانی نہیں کرتے تو ہم کچھ رقم خرچ کر کے آسانی سے قربانی تو کرلیں گے لیکن ایک عظیم تجربہ سے محروم ہوجائیں گے۔ ایک جانور کو خریدنا اور اسے اللہ کے نام پر قربان کرنا، سیدناابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو یاد کرنا اپنی ذات میں بہت سارے اسباق، ہمیں دیتا ہے۔ ایک اہم نقطہ جو ہم فراموش کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ آج ہمارے دور کے لوگ فخریہ بتاتے ہیں کہ ہمارے والد صاحب اپنے وقت میں خود قربانی کیا کرتے تھے اور قصاب کا تصور نہیں تھا، آج ہم قصاب کرتے ہیں لیکن کم از کم قربانی کے تجربہ سے گزرتے ہیں اور اس عمل کو ہمارے بچے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم یہ کام بھی نہ کریں تو ہمارے بچے یہ نہیں کہیں گے کہ ہمارے والد صاحب قربانی کیا کرتے تھے،بلکہ وہ یہ کہیں گے کہ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ عید الاضحیٰ پر قربانی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ ہمیں اس بارے میں کچھ علم نہیں یا یہ کہ ہمارے والد صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے والدصاحب کیسے قربانی کیا کرتے تھے۔


آج مدتوں بعد و ہ آرام کی نیند سویا ہوگا کہ دین کے مٹنے کے غم اور فکر میں وہ اپنی نیند ہو ہی بھلا بیٹھا تھا۔  لوگوں سے ملاقاتیں کرتا کرتا آج اپنے رب کی ملاقات کا مزہ چکھ رہا ہے۔

اب ہم پر محفر ہے کہ ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں ؟


حصولِ علم

28/03/2018
دوحہ

حصولِ علم

ایک بہت بڑا کھیل جو انسانیت کے ساتھ کھیلا گیا وہ یہ کہ حصولِ علم کو حصولِ معاش کے ساتھ جوڑ دیا ۔ اس کا لازم نتیجہ یہ نکلا کہ انسان بجائے اپنی تخلیق کی طرف گامزن ہوگیا جنہیں وہ سمجھتا ہے کہ حصولِ معاش میں مددگار ثابت ہوں گی ۔ نتیجاً تخلیقی صلاحیتیں تو ویسے ہی چھوڑ بیٹھا تھادیگر صلاحیتیں بھی اوسط درجے کی حاصل ہوئیں۔ ہمارے اسلاف جو کام کرتے تھے کیونکہ اس کا محورحصولِ روزگار نہیں تھا لہٰذا اپنی صلاحیتیوں کو بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہوئے 'احسن' کے درجے تک پہنچ جاتے تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حصولِ علم کی وجہ کودرست کیا جائے۔ حصولِ علم کا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ انسان اپنے خالقِ حقیقی کو پہچانے اور اپنے شعور کی سطح کو بلند کرے۔ حصولِ معاش دیگر ضرورتوں کی طرح ایک ضرورت ہے۔ لہٰذا اسے اسی درجے میں رکھا جائے اور ضرورت سے زیادہ تو انائیاں اس پر خرچ نہ کی جائیں۔جو توانیاں یہا ں سے بچ جائیں انہیں رب کی معرفت ، علم کے حصول اور مخلوق کی خدمت میں استعمال کیاجائے۔

حاجی صاحب

19/11/2018
۱۲ ربیع الاول ۱۴۴۰ ھ
دوحہ

حاجی صاحب

آج آسمانوں پر جشن کا سماں ہوگا جیسے کوئی خاص مہمان آیا ہو۔ آسمانوں کو مزّین کیا گیا ہوگا۔ جنت کے لیاس سجائے گئے ہوں گے، احواع و احتمام کے پکووان تیار کیئے گئے ہوں گے۔ آخر ایسا مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچا ہے جو بہت تھکا ہوا ہے۔ ۹۵ سال کا بوڈھا، اور اپنے مالک کے راستے میں چل چل کر اس نے اپنے آپ کو خاک میں ملادیا، روئے زمین کا کوئی شہر کوئی گاؤں ایسا نہ ہوگا جہاں شاید اس کے قدم نہ پڑے ہوں، اب تو شاید اس کی ہڈیاں بھی جواب دے گئی ہونگی۔ اس کی بوٹی بوٹی میں تھکن ہوگی لیکن اس کی روح میں تازگی ہوگی، اور بھلا کیوں نہ ہو کہ وہ لاکھوں انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ جو بن گیا۔ وہ جس دن اس راسے میں چلنا شروع ہوا اس کے بعد سے اپنن موت تک رکانہیں، بس چلتا ہی رہا۔ نہ صرف خود چلا بلکہ اوروں کو بھی ساتھ چلاتا رہا۔ وہ جب بات کرتا تو لمبے چوڑے قصے بیان نہیں کرتا تھا۔ اس کی زبان ایک ہی کلمے سے تر رہتی اور وہ کلمہ تھا کہ"اللہ سے ہوتا ہے ، اللہ کے غیر سے نہیں ہوتا"۔ سفر ہویا حضڑ، یہ کلمے اس کی زبان پر جاری رہتا ، یہاں تک کہ نینداور بیماری میں بحی یہ کلمات اس کی زبان سے ادا ہوئے۔ شاید وہ یہ کلمہ کہتے کہتے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا ہوگا۔

آج مدتوں بعد و ہ آرام کی نیند سویا ہوگا کہ دین کے مٹنے کے غم اور فکر میں وہ اپنی نیند ہو ہی بھلا بیٹھا تھا۔  لوگوں سے ملاقاتیں کرتا کرتا آج اپنے رب کی ملاقات کا مزہ چکھ رہا ہے۔

اب ہم پر محفر ہے کہ ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں ؟


عیدی

17/6/18
۲شوال ۱۴۳۹ ھ
کراچی

عیدی

عید الفطر کے اصطلاحی معنی ہوتے ہیں "لوٹ کر آنے والی عید"بچپن ہی سے مجھے اس عید کے لوٹ کر آنے کا انتظار رہتا تھا کیونکہ عید پر عیدی بٹورنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ بچپن میں شعوری زندگی میں قدم رکھتے ہی عید وہ  پہلا موقع تھا جب کچھ رقم ہاتھ آتی اور یہ سمجھ میں ایا کہ اس سے کچھ قابل زکر چیز خریدی جاسکتی ہے اور شاید عید ہی وہ پہلا موقع تھا جب بچپن جیسے معصوم دور میں ہی مال کی محبت نے دل میں گھر بنا لیا۔ میں جس گھر سے تعلق رکھتا تھا وہاں بنیادی ضروریات سے کہیں زیادہ مجھےپہلے ہی سے میسر تھا چناچہ عیدی نے پیسے کی طاقت کا بت دل میں آباد کیا اور میں نے  اس پیمانے  پر رشتو کو پرکھنا شروع کیا چنانچہ میری خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ عیدی جمع کروں ، وہ رشتہ دار مجھے ہر دل عزیز تھے جو عیدی میں قابل زکر رقم دیا کرتے تھے اور اس بات سے قطع نظر کے بعض رشتہ داروں کی مالی حالت کیسی ہے۔ مجھے وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے جو عیدی یا تو دیتے نہیں تھے یا برائے نام دیتے ھے۔ عید کے دن مجھے ان رشتہ داروں کے گھر جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی تھی۔

عید کے پہلے دن سے ہی عیدی کو سنبھال کر بٹوے میں رکھنا، اسے بار بار دیکھنا اور گنتے رہنا میرا مشغلہ تھا۔ میں اور میرے دوست آپس میں مواذنہ کیا کرتے تھے کہ کس نے زیادہ عیدی جمع کرلی ، جو جیت جاتا وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا اور جس کے پاس کم ہوتی وہ بیچارہ اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا ۔ بعض اوقات وہ بتاتا کہ مان لیا کہ اس وقت میرے پاس کم رقم جمع ہوئی ہے لیکن بے فکر رہو کل میں نے نانی کے گھر جانا ہے اور وہاں سے مجھے اتنی عیدی ملنے کی امید ہے کہ میں تم سب کو پیچھے چھوڑ  دونگا۔عید کے اختتام پر یہ موازنہ اس سال کے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ۔

میرے بعض رشتہ دار ایسے بھی تھے کہ ان کی ایک عیدی دوسرے کئی رشتہ داروں کی عیدیوں کے مجموعہ سے بھی زیادہ ہوتی تھی، ان کی میں دل سے عزت کرتا تھا۔ لیکن اگر کسی رشتہ دار کے بارے میں مجھے یہ علم ہوجاتا کہ انہوں نے دوسرے کسی بچے کو مجھ سے زیادہ عیدی دی ہے تو یہ عزت یقینی طور پر گھٹ جایا کرتی تھی۔ بعض رشتہ دار ایسے بھی تھے جو رقم تو نہیں لیکن تحفہ دیا کرتے تھے، مجھے اس میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ساتھیوں سے موازنہ رقم کا ہونا تھا سامان کا نہیں۔

عید ہی وہ موقع تھی جب مجھے حسد اور جلن جیسی بیماریاں لاحق ہوئیں ۔ یہ اس وقت ہوتا جب میرے دوستوں کے پاس مجھ سے زیادہ رقم جمع ہوجاتی۔

جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ بیماری صرف بچوں میں ہی نہیں بلکہ بڑوں میں بھی ہے، ہاں اس کی نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔ بڑے اپنے بچوں کو یہ سکھاتے کہ آ پ نے عیدی مانگنی نہیں ہے ، کوئی دے تو لے لیں، دوسری طرف بڑے خود عیدی مانگتے نظر آئے، نائی، پولیس والے، رکشہ والے اور چوکیدار ، یہ سارے عید پر عیدی مانگتے ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ یہ کہتے کہ آپ اپنی خوشی سے جو دین اچاہیں دے دیں، جبکہ دوسری طرف نہ دینے پر یا کم دینے پر یہ سارے خفا بھی ہوجاتے ۔

جب میں تھوڑا اور بڑا ہوا تو مجھے یہ مرض پورے پورے گھر انوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا نظر آیا، رشتہ لگنے کے بعد ہر عید پر لڑکے اور لڑکی والوں پر عیدی بھیجنا ہمارے معاشرے میں فرض کا درجہ رکھتا ہے۔عیدی نہ بھیجنا تو بہت دور کی بات اگر بالفرض آپ نے لوازمات پورے نہیں رکھے تو یہ آپ کو گھٹیا ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔

مال کی محبت اور رسم و رواج کی اندھی تقلید ہی کا ثمر ہے کہ عید جیسے خوشی کے موقع حسد، جلن، کینہ اور غیبت جیسے امراض دلوں میں پہنچتے ہیں۔

دعوت افطاری


۱۶ رمضان ۱۴۳۹ھ                             1/6/2018
دوحہ

دعوت افطاری
گذشتہ کل ایک افطار کی دعوت میں جانا ہوا۔ اہلیہ نے بتایا کہ ایک خاتون وہاں موجود تھیں جو یہ کہہ رہی تھیں کہ انہیں روزے قطعی نہیں پسند ۔ مجھے اور اہلیہ دونوں کو اس بات پر حیرانی ہوئی کہ ایسا تو ممکن ہے کہ کسی شخص پر اعصابی یا جسمانی طور پر روزے بھاری ہوں لیکن باقاعدہ محفل میں بیٹھ کر اللہ کے کسی کام کے بارے میں برسلا اظہار کرنا کہ مجھے یہ پسند ہی نہیں ہے، کچھ مناسب معلوم نہیں ہوا۔ اہلیہ نے بتایا کہ گزشتہ سال بھی ایک افطار کی دعوت میں انہوں نے اسی قسم کی کوئی بات کی تھی اور روزہ سے اپنی ناگواری کا اظہار کیا ۔
کسی حال میں روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ سختی کا عالم یہ تھا کہ اگر گھر کے کسی فرد کو 104 دگری بخار بھی ہے تب بھی اسے روزہ رکھنا پڑتا تھا۔
یہ بات سنی تھی کہ مجھے ساری بات سمجھ مِں آگئی۔ بچپن کی وہ نامعقول سختی تھی جس نے آج ایک پڑھے لکھے سلجھے ہوئے شخص کو ایک حکم سے متفر کردیا۔
ہم کب تک فرض کو قرض کی طرح ادا کریں گے؟
کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی عبادت کو زبردستی کروانے کے بجائے اس کی حکمتیں اور فضیلتیں بتا کر اس کا شوق پیدا کیا جائے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ اللہ کے خوف سے زیادہ اللہ کی محبت دل میں پیدا کی جائے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص سے جوچھوٹ گیا اسے بھلا کر جو اس نے حاصل کرلیا اس پر نظر رکھی جائے؟
کیا یہ ممکن نہیں کہ اللہ نے جہاں آسانی اور گنجائش دی ہے اس کو استعمال کرنے والے پر ملامت نہ کی جائے؟
بعض بچوں کو ان کے والدین مارمار کر نماز کیلئے بھیجتے ہیں، ان کو اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ یہ مسجد میں جا کر چار رکعتیں پڑھ آئے اور اگر اس نے ایسا کرلیا تو یہ دیندار تصور کیا جائے گا۔ یہ بچہ بڑا ہوتے ہی ایسا نماز سے متنفر ہوتا ہے کہ جمع اور عیدین سے بھی جاتا ہے۔
ایک دفعہ سہہ روزہ لگاتے ہوئے ایک مسجد میں ایک قاری صاحب کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک پائپ ہے اور اس سے وہ مدرسہ میں موجود تمام بچوں کیبیٹھ پر ایک قرب لگاتے جارہے ہیں، شاید ان کے دل میں یہ بات ہوکہ Proactive رہتے ہوئے پہلے ہی ایک ضرب لگادینی چاہئے تا کہ بچے آگے صحیح سے پڑھیں۔
یہ وہ نسل تیار کررہے ہیں جو بڑی ہوکے زیادہ سے زیادہ قرآن سے یہ شغف رکھتی ہے کہ اپنے نام کے ساتھ حافظ لکھتی ہے۔

واضع رہے کہ ہم نے صرف لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو اوپر ذکر کیئے گئے عمل سے بچوں کو گزارتے ہیں۔ اس کو عموم پر قطعاً نہ لاگو کیا جائے۔