۲۹ شعبان۱۴۳۹ھ 15/05/2018
دوحہ
رمضان کی آمد
دو سال قبل سی شیلز جانا ہوا۔ وسطی افریقہ سے چند کلو میٹر
دور مڈگاسکر کے قریب سی شیلز کے جزائر میں۔ یہ بنیادی طور پر ایک تفریحی علاقہ ہے
اور سیاح یہاں سیر کرنے اور چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ میں نے رہائش کیلئے ایک مکان
کی اوپری منزل کرائے پر لی تھی۔ اس کے مکان مالک کا نام جارج تھا۔ جارج بنیادی طور
پر کسی مذہب کا ماننے والا نہیں تھا۔ سی شیلز میں مسلمان بہت کم تعداد میں اباد
ہیں۔ جو آباد ہیں وہ بھی اسلامی احکام سے نابلہ ہیں۔ ایک دور دراز جزیرے میں رہنے
کی وجہ سے جارج اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ شاید میں پہلا مسلمان تھا
مجھ سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ چند دنوں کے قیام کے دوران میری اس سے اچھی علیک
سلیک ہوگئی، واپس آتے ہوئے میں اسے پاکستان آنے کی دعوت دے کر آیا جو اس نے قبول
کرلی۔
جارج سی شیلز سے مشرق کا سفر کر رہا تھا، اس نے تین دن
کراچی میں ٹہرنے اور پھر آگے جانے کا پروگرام بنایا۔ یہ وہ دن تحے جب رمضان کی آمد
آمد تھی۔ میں نے جارج کو کراچی ائرپورٹ سے لیا اور ہم گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
رمضان شروع ہونے میں صرف دو دن باقی تھے۔ جارج رمضان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا
تھا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر اسے کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو خود ماہِ
رمضان کی آمد محسوس کرنے دیتے ہیں۔ اشتہارات پرمسنی تھی۔ کسی بورڈ پر تیل کا اشتہار تھا تو کسی پر
گھی کا، کسی پر سموسے نظر آتے تو کسی پر پکوڑے، کولا کے اشہار سب سے زیادہ موجود
تھے۔ گھر پہنچ کر میں نے اس کا کمرہ دکھا یا ، تازہ دم ہونے کے بد ہم نے ساتھ
کھانا کھایا اور جارج آرام کرنے لگا۔ شام کو ہم باہر نکلے ساحل کی سیر کیلئے گئے۔
اس راستے میں بھی کھانے پینے کے اشتہارات کی بھر مار تھی۔
گھر آکر ہم نے ٹیلیویژن کھولا اور پاکستانی پروگراموں سے
محفوظ ہونے لگے۔ ہر پروگرام کے دوران اشتہارات اور ان میں کھانے پینے کی مضری
تمایاں ، کسی اشتہار میں خاتون خانہ ایک بھرے پرے دسترخوان پر اپنے گھر والوں کو
شربت پیش کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں تو کہیں لوگ بڑی تعداد میں دعوت کھارے تھے۔ کہیں
تیل اور گھی کے اشتہار میں کباب تلے جارہے تھے، تو کہیں کیچپ کے کے اشتہار میں
سموسے اور پکوڑے کھائے جارہے تھے۔ کھانے پکانے کے مخصوصی چینل پر شیف عورتیں اور
حضرات رمضان کے اعتبار سے کھانے پکارہے تھے۔ ان تمام اشتہارات مِں کولا کا اشتہار
نمایاں تھا۔ لوگ اتنی بڑی تعداد میں کولا خرید کر لے جاتے ہوئے نظر آئے جیسے مفت
بٹ رہا ہو۔
میں نے جارج کو صرف اتنا بتایا تھا کہ مسلمانوں کا ایک
انتہائ اہم مہنیہ شروع ہونے والا ہے جس کانام رمضان ہے، اب یہ اندازہ تم خود لگاؤ
کہ اس مہینے میں ہم کیا کرتے ہیں۔
اگلے دن جارج نے بازار چلنے کی فرمائش کی ۔ میں اسے کراچی
کی سب سے بڑِ سپر مارکٹ لے گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وقت کی کمی کی وجہ سے ایک ہی جگہ تمام چیزیں مل جائیں۔ الگےدن پہلا
روزہ ہونا تھا۔ جارج مارکیٹ کا ماحول دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لوگوں نے تھوک کے حساب
سے کھانے پینے کی اشیاء ٹرالی میں بھری ہوئی تھیں، گوشت ، چاول ، دالیں ، شربت
،چائے اور مصالحے ، اکثر چیزیں 10 کے ساتھ 2 مفت والے پیکٹ میں نظر آئیں۔مارکیٹ
میں اندرہی مختلف کمپنیوں نے اسٹال لگائے ہوئے تھے۔ وہ پہلے آپ کو مکین نگٹ کی
آزمائش کرواتے اور پھر خریدنے کی پیشکش کرتے۔ اسی طرح شربت ، دہی ، دودھ اور دیگر
مصنوعات کے اسٹال موجود تھےجنہیں خریدنے سے پہلے آزمایا جاسکتا تحا۔ جارج مارکیٹ
کی سجاوٹ اور لوگوں کا راشن خریداری کا شوق دیکھ کر محفوظ ہورہا تھا۔
شام ڈھلنے کے بعد ہم مقامی بازار چلے گئے۔ سپر مارکیٹ جیسی
گہماگہمی یہاں بھی نظر آئی۔ پتھارے والے تیار تھے۔ مٹھائی کی دکان والوں نے اپنا
اسٹال آگے بڑھالیا تھا، کھجلہ اور پھینی تلے جارہے تھے اور کھجلہ پھینی کے انبار
بھلے معلوم ہورہے تھے۔ لوگ راشن اور ناشتہ کا سامان لے کر جلدی جلدی گھر جاتے نظر
آئے۔
میں نے سحری میں جارج کو بھی جگا دیا ۔ ہم نے ساتھ ناشتہ
کیا اور فجر کی نماز کے بعد میں اسے ائر پورٹ چھوڑنے چل دیا۔ راستے میں میں نے
جارج سے دریافت کیا کہ اب بتاؤتمہیں کیا محسوس ہوا ، تم کیا سمجھتے ہو کہ مسلمانوں
کا کیسا مہینہ یا تہوار آیا ہے؟ جارج نے کچھ سوچے بغیر
جواب دیا "اس میں پوچھنےکی کیا بات ہے ، یہ بات واضع ہے کہ ایک ایسا مہینہ
آیا ہے جس میں مسلمان خوب کھاتے ہیں، شاید انہیں ان کے مذہب کی طرف سے زیادہ کھانے
کی ہدایت کی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ کھانے کی مقدار اور انتخاب میں اپنی صحت
تک کا خیال نہیں رکھ رہے "۔
)نوٹ: یہ کہانی اور اس کے کردار فرضی ہیں۔(